کیوں آگ لگی ہے جگا جگا
کیوں دھواں دھواں ہے جا بجا
جو تھی چنگاری دبی دبی
کیسے شولوں میں بن گئی ابھی ابھی
کیوں خون اور گوشت کی ہولی ہے
کیوں ماتم ہے گلی گلی
کیوں اٌڑھ گئے جیسے پتے ہو
کیوں بکھرے جیسے موتی ہوں
کیوں بات لاسانی فکروں میں
کیوں ایک نہ ہو گئے سبھی
کب آپ اپنے دشمن ہوئے
کب الٹے رخ پے ہوا چلی
جب آنکھ کھلی تو پتا چلا
یہ آگ لگی ہے ابھی ابھی
کیوں پہلے سے نہ سوچ لیا
کیسے پوھنچے اس رستے تک ہم
جس رستے کی منزل نہیں
نہ آج نہ کل نہ اور کبھی
اب گھٹنوں میں سر دینا کیا
آنکھوں سے نیر بہانہ کیا
جب بیچ اٌے جنّت کو تم
قیمت لیکر کھری کھری
سہی راستہ ہمکو ڈھونڈنا ہے
اب بکھرے موتی چننا ہے
باطل کو مٹانا ہوگا اب
ہوجاؤ کھڑے بس سب ابھی
مستقبل کے معمر ہیں ہم
ملک جو پھر سے بنانا ہے
بڑھو آگے اور یہ وعدہ کرو
دوہراو گے نہ پھر غلطی ابھی
امّارہ بری