یہ زندگی انگنت بے مقصد
باتوں کا کھیل ہے
صحرا میں پھیلی ویرانی کی طرحاں
سوچوں کی اڑھتی ریت
پھول اور خشبو سے ملی دوستی میں
کانٹوں کا میل
سمندر میں پھیلی بیشمار لہریں
اور اس میں ڈوب جانے والی
دُکھوں کی سیج
ان اپس میں ٹکرا کر
معدوم ہونے والی لہروں میں
کوئی لہر بھی کنارے پر نہیں لگتی
یہ لہریں کب سیکھنگی
کے جب یہ مل کر آگے بڑھتی ہیں
تو انکو چھیڑ کر آگے سفر کرنے والے
دل تھام لیتے ہیں
اس اور جب یہ مل کر
ساحل کا رخ کرتی ہیں
تو ہویں بھی
انکا ہاتھ تھام لیتی ہیں
اس ہوا اور لہروں کے میل سے
بوہت سے سر بج اٹھتے ہیں
اور ان گیتوں کی تننوں میں
دلوں کے دے جل اٹھتے ہیں
پھر یہ گیت کبھی معدوم نہیں ہوتے
اور یہ دے کبھی گل نہیں ہوتے
وقت کے کھیل اور ویرانی میں
کبھی گم نہیں ہوتے
ایمن شفقت