ابھی پلکھ ہی تھی جھپکی کے زمانہ بدل گیا
کوئی عشق کا مسافر راہ میں بھٹک گیا
اُسے یاد پھر نہ آی اپنے صنم و دلپسند کی
جس سے میلاپ کے لئے وہ راہ دیکھتا تھا
وہ بھٹکا ایسا شاید خود اسے سمجھ نہ آی
نہ ضمیر اسکا بولا نہ روح کپکپای
ذکر کرتے ہوئے وہ اسکا کیوں گھبرا گیا
دنیا کا بھٹکانا اُسے راس آ گیا
بھٹکا ہوا مسافر — ہمہ عظیم