انسان کہاں آزاد ہوئے ہیں؟
جب من چاہے اڑھ جاتے ہیں
بستی بستی دل بہلایں
لوٹ کے گھر کو آتے ہیں
اس دھرتی کے سینے پر
گھر جتنے آباد ہوئے ہیں
اپنے ہاتھوں برباد ہوئے ہیں
انسان کہاں آزاد ہوئے ہیں؟
کہیں زنجیروں میں جکڑے ہیں
کہیں رشتے دامن پکڑے ہیں
جو دامن ان سے پاک ملیں
انکے بھی اپنے جھگڑے ہیں
ہر ایک کے سو سو چہرے ہیں
من دریاؤں سے گہرے ہیں
اب اصلاح ان کی کون کرے
ان سوچوں پی بھی پھرے ہیں
سب ہننس کی چالیں چلتے ہیں
دل میں پچھتاوے پلتے ہیں
اپنی ہستی کو بھول سبھی
دوجے کے رنگ میں ڈھلتے ہیں
نقاب سجا ہر چہرے پی
ڈونگ کے ایجاد ہوئے ہیں
آزاد تو بس ایک پہنچی ہیں
انسان کہاں آزاد ہوئے ہیں؟
نیلم سوحیل
{ 1 comment… read it below or Speak your mind! }
good job!