ایک لفظ میں داستان بسے
ایک داستان میں چند لفظ چپے
مجھے میری خودی سے ملا کے
مجھے جگا کے میرے ہی خواب دیکھیے
جو چلنے کی ہمت کی کھوج میں دربدر تھا
اس کو پرواز کے گڑ سکھ ڈالے
جو اپنے نفس میں قفل رہا اُسے
ستاروں میں آشیاں کے راستے دکھا ڈالے
ایک خواب ہی تو ہے
جو نہ دیکھ سکا اب کر لیا کرنا تھا جو بھی
ایک تعبیر ہی تو ہے
جو یہاں آج میں بھی ہوں اور وہ بھی مگر
اب کبھی شاید ویسی نیند سو بھی لونگا تو بھی کیا
میری نیند میں ویسے خواب ویسی تعبیر ہوگی ؟
ہاں میں ہی تو اقبال ہوں میں ہی تو جوان جوش ہوں
میرے ہی کاندھے پے اپنا خواب اپنی تعبیر چھوڑ گیا ہے
سمعی خان