پتھروں کے دیس میں
ہے مجھے گھر بسانا
اس صحرا میں بھی ہے
مجھے ایک چمن لگانا
جو لگے سارے جہاں کو ناممکن
مجھے ہے وہ کر دکھانا
ان ہواؤں سے ہے مجھے کیوں گھبرانا
انہی نے تو ہے مجھے اونچا اُڑانا
نفرتوں کو بھی ہے مجھے مٹانا
اور پیار کو ہر سو پھیلانا
ایک دیس ہے مجھے بسانا
جہاں پراے کو بھی ہو دل کا حال سنانا
اپنی راہ کے کانٹے چن کے
ہے مجھے سب کے لئے پھول لگانا
ہے مجھے ایسا دیس بسانا
جہاں مزدور کا بھی ہو کوئی ٹھکانہ
جہاں نہ بکتا ہو ضمیر پیسوں کی خاطر
جہاں نہ لوٹی ہو عزت ہوس کی خاطر
اور جہاں نہ مارتا ہو انسان بھوک کی خاطر